Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

اعوان کے روز و شب کا گلفام کو تلاش کرنے میں گزر رہے تھے۔ جب اس سے اعوان کی ملاقات ہوئی تھی وہ اسی گھر میں مقیم تھا ماں اور پھر باپ کے یکے بعد دیگرے اموات کے باعث وہ خاصا دکھی و بکھر سا گیا تھا۔ اعوان نے دیوانگی بھرے انداز میں اپنی اور ماہ رخ کی محبت اور بے وفائی کی داستان اس کو سنائی تھی اور اس کے لب خاموش رہے تھے مگر اس کی بھوری آنکھوں کی شفاف سطح پر کئی ستارے ٹوٹ کر بکھرتے دیکھے تھے پھر وہ خاموش ہو گیا تھا نگاہیں جھک گئی تھیں دوبارہ اس سے ملاقات کرنے کی اس نے ضرورت محسوس نہ کی تھی۔
اب ماہ رخ کی خواہش پروہ اس علاقے میں گیا تھا اور اس علاقے کو بالکل ہی بدلا ہوا پایا تھا اور ڈھونڈنے سے بھی گلفام نہیں ملا۔
”میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے مگر ناکام رہا ہوں۔


اتنا ضرور معلوم ہوا کہ اس نے اپنا وہ آبائی گھر بلڈر کو خاصے مہنگے داموں فروخت کیا تھا اور پھر کہاں گیا یہ کوئی نہیں جانتا۔“ اس نے کھانے کے دوران ماہ رخ کو آگاہ کیا۔

”کہاں چلا گیا گلفام ،کہاں جا سکتا ہے؟ وہ تو تنہائی سے گھبراتا تھا اکیلے رہنے کی عادت نہیں تھی اسے ،پھر سب نے ہی اسے تنہا چھوڑ دیا اور وہ تنہائی سے گھبرا کر ہی کہیں چلا گیا ہے۔“ چائینز رائس کی پلیٹ اس نے بد دلی سے آگے سے ہٹا دی۔
”ماہ رخ! اس طرح کھانا چھوڑنے سے گلفام نہیں ملے گا بلکہ تم کمزوری کا شکار ہو جاؤ گی میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں اسے تلاش کرنے کی اگر وہ اس ملک میں ہے تو مل جائے گا۔
“ اعوان نے نرمی سے اسے سمجھایا۔
”وہ ملک چھوڑ کر کہاں جائے گا۔ وہ تو کبھی شہر سے باہر نہیں گیا تھا۔“ اس نے پانی پی کر گلاس رکھتے ہوئے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔
”ماہ رخ یہ سب دس گیارہ سال پرانی باتیں ہیں ان گزرے سالوں میں جب سب کچھ بدل گیا ہے تو… گلفام کی عادات و مزاج بھی شدید بدل گیا ہوگا وہ تنہائی سے گھبرا کر مڈل ایسٹ کی طرف نکل گیا ہو یا اس نے شادی کر لی ہو اور اپنی فیملی میں مگن ہو۔
“ اسے سمجھانے کی سعی کر رہا تھا۔
”ایسا ممکن نہیں ہے گلفام شادی کرکے یا ملک سے باہر چلا جائے۔ وہ بے حد وطن پرست تھا اس نے صرف دو محبتیں کی تھیں ایک اپنی مٹی سے اور دوسری ماہ رخ سے…!“ لقمہ اس کے حلق میں اٹکنے سا لگا وہ اس کے قریب تھی درمیان میں صرف ٹیبل کا فاصلہ تھا وہ چاہتا تو ہاتھ بڑھا کر چھو سکتا تھا اسے مگر یہ فاصلہ پوری زندگی سے بھی بڑھ کر لگا۔
”ارے کیا ہوا اعوان! تم نے بھی اپنی پلیٹ میں یونہی کھانا چھوڑ دیا ہے میری کوئی بات بری لگی کیا؟“ وہ اس کو پلیٹ کھسکاتے دیکھ کر پریشان لہجے میں گویا ہوئی۔
”نہیں… تمہاری ایسی کوئی بات نہیں ہے جو بری لگے مجھے۔“
”پھر کھانا کیوں چھوڑ دیا؟“ وہ پریشان ہوئی۔
”اگر گلفام کا پتا نہ چلا تو پھر کیا کرنے کا ارادہ ہے تمہارا؟“ وہ اس کی طرف دیکھتا ہوا سنجیدگی سے گویا ہوا۔
###
”بہت برا ہوا تمہارے ساتھ بیٹا۔“ اس کی ساری گفتگو بے حد تحمل سے سننے کے بعد وہ افسردہ لہجے میں گویا ہوئیں۔
”میں نے عائزہ کے ساتھ غلط کیا وقت نے میرے ساتھ غلط کیا میں نے عائزہ کو سچ کی سزا دی تقدیر نے مجھے سزا دی میں یہ بھول گیا تھا کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے میں نے عائزہ سے انتقام لینے کیلئے اپنی کولیگ رمشا سے شادی کرنی چاہی تھی اور وہ کیا نکلی؟“
”چھوڑو بیٹا ان باتوں کو یہ وہ زخم ہے جس کو جتنا کریدو گے درد بڑھتا ہی جائے گا اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے تمہیں اس فراڈی عورت سے بچا لیا۔
“ وہ ٹیبل سے ناشتے کے برتن سمیٹ کر سنک میں رکھتے ہوئے بولیں۔
”دراصل پھوپھو جان بے وقوف وہی لوگ ہوتے جو خود کو بہت زیادہ اسمارٹ سمجھتے ہیں جیسے کہ میں خود کو سمجھتا تھا۔“
”تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا یہ سب سے اچھی بات ہے ٹھوکر کھا کر گر جانا کوئی قابل گرفت بات نہیں ہے کچھ ٹھوکریں ایسی ہوتی ہیں جو ہمیشہ کیلئے گرنے سے بچاتی ہیں پھر وہ انسان سب سے زیادہ نالائق ہے جو اپنی غلطیوں سے بھی سبق نہ سیکھے اور گمراہ ہی رہے۔
“ وہ اس کے ہمراہ کچن سے باہر نکل آئی تھیں۔
”آپ مجھے ایڈوائز دیں کہ مجھے اب کیا کرنا چاہئے۔“
”میں کیا ایڈوائز دوں فاخر ،میں نہیں جانتی تم کیا کرنا چاہتے ہو ،کیا ارادے ہیں تمہارے کچھ بتاؤ گے تو پھر ہی کچھ بتا سکوں گی۔“ وہ لاؤنج میں اس کے روبرو بیٹھ گئی۔
”مجھے سمجھ نہیں آ رہا رمشا کے برتاؤ نے ڈس ہارٹ کر دیا ہے۔“
”تمہارے دل میں عائزہ کیلئے کوئی جگہ ہے معاف کر چکے ہو اس کی نادانیوں کو یا وہ ابھی بھی مجرم ہے تمہاری نگاہوں میں؟“
”میں فیصلہ نہیں کر پا رہا پھوپھو جان۔
”کیا مطلب… کیسا فیصلہ…!“ وہ چونک کر بولیں۔
”عائزہ کے ساتھ زندگی گزارنے کا وہ معاف کر دے گی مجھے پھر صباحت پھوپھو کے سامنے کس طرح جا پاؤں گا میں ،انکل اور ان کی والدہ سب کو کس طرح فیس کروں گا میں؟“ وہ الجھن بھرے لہجے میں بولا۔
”پہلے تم اپنی نیت صاف کرو ،عائزہ نے جو کچھ تمہیں بتایا تھا اپنے اور راحیل کے متعلق وہ سب بھول جاؤ گے تم؟“
”اس کی زندگی میں راحیل تھا اب میری زندگی میں بھی تو رمشا کی بے وفائی و مکاری کی داستان شامل ہو گئی ہے۔
وہ بھی تو یہ سب برداشت کرکے میرے پاس آئے گی تو میں بھی برداشت کر سکتا ہوں۔“
”سوچ لو اچھی طرح سے فاخر ،عورت برداشت کر لیتی ہے مگر مرد عورت جیسا ظرف بالکل نہیں رکھتا کبھی کچھ وقت گزرنے کے بعد تم کو وہ باتیں یاد آئیں اور تم دوبارہ اس سے لاتعلق ہو کر رشتہ توڑ لوایک بار تو یہ سب ممکن ہوا ہے لیکن بار بار ایسی باتیں چھپائے نہیں چھپتی ہیں۔
###
عائزہ کے انکشاف نے اسے شدید حیران کر دیا تھا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل ہی سلب ہو گئی تھی یہ کیا ہوا… وہ بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا عائزہ کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”جو بھی کہہ رہی ہوں وہ سچ ہے پری! بہت خوش قسمت ہو تم جو طغرل بھائی جیسے شخص تم سے اتنی شدید محبت کرتے ہیں۔ تم کہہ رہی ہو وہ جب سے یہاں آئے ہیں تمہیں لوٹنے کے چکر میں ہیں یہ کس قدر اخلاق سے گرمی ہوئی سوچ ہے۔
“ وہ آہستگی سے کہہ رہی تھی۔
”وہ رشتوں کا احترام کرنا جانتے ہیں اور جو مرد ہوس پرست ہوتے ہیں وہ نہ رشتوں کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ شادی کے بندھن میں بندھنا پسند کرتے ہیں امید ہے سمجھ رہی ہو گی میری بات؟“
”تم کس بناء پر ان کی اس قدر سائیڈ لے رہی ہو؟“
”وہ طغرل بھائی تھے جنہوں نے راحیل کے ساتھ فرار ہونے سے فرسٹ ٹائم بتایا تھا اور سیکنڈ ٹائم جب راحیل نے اور میں نے یہ شہر چھوڑنے کا منصوبہ بنایا اور میں اس کے ساتھ پھر سے جانے کی تیاری کرکے نکلی تھی۔
اگر اس وقت طغرل بھائی موقع پر ہی مجھے نہ پکڑتے تو نامعلوم آج میں کہاں ہوتی؟ راحیل کی اصلیت سامنے آئی تو اس کاگھناؤنا کردار بھی نظر آ گیا تھا۔ پری! محبت ،محبت میں بھی فرق ہوتا ہے کوئی جسم سے محبت کرتا ہے اور کوئی روح سے اصل محبت تو یہی ہوتی ہے جو روح سے کی جائے۔“
”مجھے ان باتوں کا نہیں پتا ،میں صرف یہ جانتی ہوں میرے باپ نے بھی میری ماں سے محبت کی تھی سب کی مخالفت و ناپسندیدگی کے باوجود انہوں نے شادی کر لی اور کچھ عرصے بعد ہی وہ دونوں اپنی الگ الگ دنیا بسائے یہ بھول گئے کہ وہ ایک وجود کو دنیا میں لائے ہیں اس پر بھی ان کا کچھ حق ہے کوئی فرض ہے مجھے کسی کھوٹے سکے کی مانند دادی کی جھولی میں ڈال کر فراموش کر دیا گیا تھا۔
“ وہ بری طرح رونے لگی۔
”میں کس پر اعتبار کروں مجھے طغرل پر یقین ہوتا ہے مگر پھر اگلے لمحے ہی میں بے اعتبار ہونے لگتی ہوں۔ میری محرومیاں ،تشنہ آرزوئیں پاگل کرنے لگتی ہیں۔ اس کی بے تکلفیاں بار بار قریب آنے کی سعی یہ سب مجھے بالکل ناپسند ہے۔“
”وہ تو ان کی عادت ہے تم دیکھتی نہیں ہو وہ دادی جان سے بھی تو اس طرح بات کرتے ہیں اور پاپا سے بھی ،یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ہے جو تم نے ان کو کریکٹر لیس ہی سمجھ لیا۔
“ وہ ہنس پڑی۔
”مجھ میں ،پاپا اور دادی میں تمہیں کوئی ڈیفرنس فیل نہیں ہوتا؟“ اس کی ہنسی سے وہ جھینپی۔
”وہ تم سے محبت بھی تو بے حد کرتے ہیں ہو سکتا ہے تمہیں دیکھ کر وہ خود پر کنٹرول نہیں رکھ پاتے ہوں ،لیکن پھر بھی وہ لمٹ کراس نہیں کرتے ہوں گے کیونکہ وہ اس نیچر کے نہیں ہیں۔“
”وہ تم اتنے وثوق سے کیوں کہہ رہی ہو عائزہ ،کوئی تجربہ کیا ہے تم نے جو تم بار بار گارنٹی دے رہی ہو ان کے کریکٹر کی؟“
”ہاں کیا ہے میں نے تجربہ۔
“ اس کی آواز مدھم ہوئی۔
”وہ کیسے؟“ وہ ازحد متعجب ہوئی۔
”ہوں… یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں راحیل کی محبت میں پاگل تھی اس سے سیل پر باتیں کرنے کیلئے راتوں کو تنہا گوشے ڈھونڈتی تھی اور ایسی رات میں میں نے عادلہ کو طغرل بھائی کے روم میں جاتے دیکھا وہ اس وقت نائٹ ڈریس پہنے تیز میک اپ و پرفیوم میں ڈوبی ہوئی تھی۔“
”عادلہ کیا کہہ رہی ہو… دماغ درست ہے تمہارا؟“ اس کا دل بری طرح دھڑکا وہ تیز لہجے میں بولی۔
”ہاں عادلہ گئی تھی ان کے بیڈ روم میں اگر یہاں بات طغرل بھائی کے کریکٹر کی نہ ہوتی تو میں کبھی یہ بات تم کو نہیں بتاتی لیکن یہاں مجھے حق ادا کرنا ہے۔ کل طغرل بھائی نے میری عزت پر داغ نہیں لگنے دیا تھا اور آج میں ان کا کردار بچانے کیلئے وہ راز کھول رہی ہوں جو بہن ہونے کے ناطے مجھے ہمیشہ اپنے سینے میں محفوظ رکھنا چاہئے تھا۔“ اس کی آواز میں لرزش تھی اضطرابی انداز میں وہ ہونٹ کاٹ رہی تھی۔
”اگر وہ ایسے ہی بدکردار ہوتے اور ان کی نیت میں کھوٹ ہوتا تو وہ اسی وقت عادلہ کو اپنے بیڈ روم سے باہر نہ نکالتے۔“
”اوہ… عادلہ نے ایسا کیوں کیا اس نے نہ اپنی عزت کا خیال رکھنا نہ پاپا کا سوچا وہ اس حد تک بولڈ ہے۔“ وہ عائزہ کے سینے سے لگی آنسو بہا رہی تھی۔
”ممی نے ہم بہنوں کو دادی کی محبت سے دور رکھا ہمیں اچھے برے کی کبھی تمیز ہی نہ سکھائی انہوں نے… اسی کا انجام ہے یہ جو ہم لوگ بے سکون ہیں پہلی رات کو ہی فاخر نے مجھے دھتکار دیا اور عادلہ کو نامعلوم کیا ہوا ہے وہ روم میں بند پڑی رہتی ہے۔
”تم پریشان مت ہو عائزہ ،تم نے فاخر بھائی سے سچ بولا تھا اور تمہاری یہ نیکی کبھی ضائع نہیں ہو گی کبھی نہ کبھی ان کو اپنی غلطی کا احساس ضرور ہوگا اور وہ لوٹ آئیں گے تمہارے پاس۔“
”مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے پری ،میں اپنی سزا بھگت رہی ہوں بس تم سے میں ہاتھ جوڑ کر یہی التجا کرتی ہوں طغرل بھائی کا ہاتھ تھام لو محبت کے بغیر زندگی ادھوری ہوتی ہے تمام واہموں اور وسوسوں کو دل سے نکال دو اس جذبے کو محسوس کرو۔“

   1
0 Comments